تعلیم

وادی کیلاش کے گاوں رمبورمیں طلبہ وطالبات کھلے آسمان تلے تعلیم حاصل کرنے پر مجبور ہیں 

Untitled-1چترال ( نذیرحسین شاہ نذیر) تعلیمی انقلاب کا دعوی کرنے والی تحریک انصاف کی صوبائی حکومت سے گورنمنٹ کیلاش پرائمری سکول بڑادیش رمبور کے دو سو معصوم طلبا ء و طالبات نے سوال کیا ہے ۔کہ گذشتہ سال یکم اگست کے تباہ کن سیلاب سے متاثر ہونے کے بعد سکول کے بچوں کوٹھٹھہرتی سردی ، تپتی دھوپ ،آندھی اور طوفان میں بغیر چھت ، بغیر ٹاٹ اور بغیر لیٹرین کی سہولت کے کس جرم کی سزا دی جا رہی ہے ۔ اور ان کو اپنے سکول کی دوبارہ بحالی کیلئے مزید کتنے سال اپنے انقلابی قائدین کے نگاہ کرم کا انتظار کرنا پڑے گا۔ اقلیتی کمیو نٹی سے تعلق رکھنے والے ان بچوں کے چہروں پر حکمرانوں کی بے حسی کی وجہ سے پیداشدہ مایوسی کے اثرات واضح طور پر دیکھے جا سکتے ہیں ۔ مٹی کے فرش ٹوٹے ہوئے سکول فرنیچر اور ایک این جی او کی طرف سے فراہم کردہ ٹینٹ اُن طلباء و طالبات کا کل تعلیمی اثاثہ ہیں ۔ بچوں کے والدین نے ہمارے نمائندے کو بتایا ۔ کہ گذشتہ سال یکم اگست کو سکول سیلاب برد ہوا ۔ اس وقت سے بچے شدید مشکلات کا شکار ہیں ۔ حکومت نہ متاثرہ سکول کی بحالی کیلئے کوئی فنڈ مہیا کر رہا ہے ۔اور نہ متبادل جگہ پر سکول تعمیر کررہا ہے ۔ اس وجہ سے بچے دلبرداشتہ ہوکر سکول جانے میں دلچسپی نہیں لے رہے ۔ اور جو بچے سکول جاتے ہیں ۔ مٹی کے فرش پر بیٹھنے کی وجہ سے سکول یونیفارم ایک دن میں برباد ہوجاتے ہیں ۔ جن کی دھلائی بچوں کی ماؤں کیلئے روزانہ کا کام اور غریب والدین پر اضافی بوجھ بن گیا ہے ۔ دو سو سے زائد طلباء و طالبات کیلئے سکول کی بلڈنگ نہ ہونے سے اساتذہ کو بھی انتہائی پریشانیوں کا سامنا ہے ۔

ا یک مقامی سوشل ورکر نوجوان یاسر کیلاش نے انتہائی افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا ۔ کہ موجودہ حکومت نے تعلیم کے حوالے سے بلند بانگ دعوے کئے تھے ۔ اور تعلیمی بجٹ میں ناقابل یقین حد تک اضافہ کرنے کا اعلان کیا تھا ۔ خصوصا اقلیتی کمیونٹی کو اس صوبائی حکومت سے بہت زیادہ توقعات تھیں ۔ لیکن پندرہ مہینے گزرنے کے باوجود کیلاش ویلیز کی سڑکیں و دیگر ترقیاتی منصوبے تو دور کی بات ، متاثرہ سکول کی تعمیر تک نہیں کی گئی ہے ۔ جس کی وجہ سے بچے کھلے آسمان تلے مٹی پر بیٹھ کر سبق پڑھنے پر مجبور ہیں ۔ جن میں سے کئی بچے بچیاں مختلف بیمایوں میں مبتلا ہو چکے ہیں ۔ انہوں نے مطالبہ کیا ۔ کہ فوری طور پر متاثرہ سکول کو بحال کیا جائے ۔ تاکہ سردی اور برفباری سے پہلے بچوں کوخیموں کی بجائے سکول بلڈنگ میں منتقل کیا جا سکے ۔ اور بچے اطمینان کے ساتھ اپنی تعلیم جاری رکھ سکیں۔

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button