چترال

اے این پی کے دوستوں کومشورہ ہےکہ آئندہ سوچ سمجھ کربیان بازی کریں ورنہ لینے کے دینے پڑجائیں گے، سلیم خان

چترال(نذیرحسین شاہ نذیر) ممبرصوبائی اسمبلی سلیم خان نے ایک اخباری بیان میں کہاکہ چترال کے لئے پاکستان پیپلزپارٹی کے خدمات روزروشن کی طرح عیان ہے،یہ بات عوام کوبھی معلو م ہے کہ پیپلزپارٹی جب بھی حکومت ملی ہے توچترال میں ریکا رڈ ترقیاتی کام ہوچکے ہیں۔ چاہے شہید ذوالفقارعلی بھٹوکی حکومت ہو،یاشہید بے نظیربھٹوکی یاآصف علی زارداری، ہردورِحکومت میں چترال میں ترجیحی بنیادوں پر کام ہوچکے ہیں۔انہوں نے کہاکہ مجھے اس بات پر نہایت افسوس ہواکہ اے این پی کے ایک کارکن عباداللہ نے میرے خدمات کی نفی کرتے ہوئے چترال کے لئے میرے خدمات کوعوامی نیشنل پارٹی کے کھاتے میں ڈالنے کی ناکام کوشش کی ہے جوکہ سورچ کوچراغ دیکھانے کے مترادف ہے ۔انہوں نے کہاکہ اے ا ین پی کے دوستوں کویہ واضح کرناچاہتاہوں کہ جب 2008ء کے الیکشن ہوئی توصوبائی اسمبلی میں اے این پی کے ممبران کی کل تعداد 42تھے اورپی پی پی کے ممبران کی تعداد 32تھے یعنی اے این پی ہمارے بغیرحکومت بناہی نہیں سکتی تھی۔جب صوبے میں ہم دونوں پارٹیوں کی مشترکہ حکومت بن رہی تھی تویہ فیصلہ ہوا کہ ترقیاتی بجٹ کا45فیصدپی پی پی کے ممبران اسمبلی کے حلقے میں خرچ ہوگی اور55فیصدحصہ عوامی نیشنل پارٹی حلقوں میں خرچ ہوگی۔بالکل اسی فارمولے کے تحت ضلع چترال کے اندار سابقہ دورحکومت میں جینے بھی ترقیاتی کام ہوئے ہیں سب کے سب میرے مشورے اورمطالبے پر ہوئے ہیں کیونکہ میں صوبائی کابینہ کاممبرتھا اورصوبائی حکومت کاحصہ تھا۔انہوں کہاکہ پاکستان پیپلزپارٹی اگرچاہتاتوصوبے میں اپنی الگ حکومت بھی بناسکتی تھی مگراے این پی پرہمارا احسان ہے۔ ہماری وجہ سے امیرحیدرہوتی پانچ سال تک صوبہ خیبرپختونخوا کاوزیرزاعلیٰ رہ کرمزے لوٹتے رہے ورنہ ان کی جگہ اپوزیشن تھی۔انہوں نے کہاکہ میں یہ بات نہایت افسوس کے ساتھ کہناچاہتاہوں کہ میں جب بھی اپنے اورپاکستان پیپلزپارٹی کے خدمات کاذکرکرتاہوں تواے این پی والوں کے پیٹ میں کیوں مروڑپیدا ہوتاہے ۔عباداللہ اوران کی پارٹی کبھی چترال سے کونسلرکاسیٹ بھی نہیں جیت سکاہے توپھراتنے بڑے دعویٰ کرنے کی کیاضرورت ہے۔ میں یہ بات بھی بتانا ضروری سمجھتاہوں کہ سابقہ دورحکومت میں صوبے کے اندرجتنے بھی بڑے بڑے کام ہوئے ہیں سب کے سب ہمارے مرکزی حکومت کے تعاون کی وجہ سے ہوئے ہیں۔ چاہے صوبے کے نام کی تبدیلی ہویاصوبائی خود مختاری اگرصدرپاکستان آصف علی زارداری کی تعاون نہ ہوتاتوصوبے کانام کبھی بھی تبدیل نہیں ہوسکتاتھا۔انہوں نے کہاکہ ہمارے مرکزی حکومت کے تعاون کی وجہ سے بجلی کے رائلٹی کی مدمیں ہمارے صوبے کو110ارب روپے اضافی ملے، نئے این ایف سی ایورڈ کی منظوری کی وجہ سے ہمارے صوبے کوہرسال ایک کھرب روپے اصافی ملتے رہے۔ اس کے علاوہ دہشت گردی کے خاتمے کے لئے صوبے کواربوں روپے ہرسال ملتے رہے۔ ملاکنڈ ڈویژن کے دہشت زدہ عوام کی اربوں روپے کے قرضے معا ف ہوئے جس کی وجہ سے چترال کے لوگوں کی بھی تقربیا2ارب روپے معاف ہوئے۔ اگرانتے اضافی وسائل ہمارے صوبے مرکزکی طرف سے نہ ملتے توحیدرہوتی ترقیاتی کاموں کے لئے کہاں سے انتے وسائل لاتے لہذا
اے این پی کے دوستوں کومیرامشورہ ہیں کہ ائندہ سوچ سمجھ کربیان بازی کریں ورنہ لینے کے دینے پڑجائیں گے۔

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button