
محبت کے ایوانوں میں زلزلہ بپا ہوتا ہے جب کہیں ناگہانی موت ہوتی ہے۔ جب وجود خود کو منوں مٹی کے حوالے کرکے زندگی کو عذاب سمجھ کر اس سے نجات حاصل کرلیتا ہے۔ کہیں کسی پُل سے ، چھت سے کود کر جان دے کر وہ سمجھ لیتا ہے کہ جیت گیا ہے۔ کسی کمزور سے پنکھے کو زندگی دان کرکے اور غلط قدم اٹھا کر وہ اپنے تئیں زندگی کا نیا مفہوم چن لیتا ہے۔ مگر ۔۔۔۔
کاش وہ اس مگر پر رک جائے۔ کیا وہ جیت پاتا ہے؟ ہرگز نہیں۔ گھر میں موجود وہ باپ جو روز اسے طعنے دیتا ہے۔ وہ بہن جس کے سلگتے جملوں سے اس کا دل جلتا ہے۔ نمبروں کا مقابلہ، عہدوں کا مقابلہ، پیسوں کا مقابلہ ان مقابلوں میں پس کر وہ خود کو پیس دیتا ہے۔ وہ مر جاتا ہے۔ وہ انسان ہے۔ جینا چاہتا ہے۔ ہنسنا چاہتا ہے۔ گھر کے آنگن میں سب کو مسکراتے محبت تقسیم کرتے دیکھنا چاہتا ہے۔ وہ محبت کو کائنات کا نیوکلیس سمجھتا ہے۔ دسترخوان حیات پر اپنوں کے گونجتے قہقہے اسے راحت دیتے ہیں اور ان کی اُتری صورت اسے مایوس کردیتی ہے۔ وہ ایک نوجوان لڑکا ہوسکتا ہے۔ وہ جذباتی جوان ہوسکتا ہے یا غربت سے ستایا اور حالات کا مارا کوئی غریب ہوسکتا ہے۔ وہ روز گھر سے نکلتے ہوئے سوچتا ہے کہ آج وہ دنیا کو بدل دے گا۔ آج اس کے حالات بدلیں گے۔ آج نظام شاید اس کے حق میں گواہی دے گا مگر یہی "مگر” اس کی جان بھی لیتا ہے۔ رات کو گھر لوٹتے وہ طالب علم جس کے نمبر کم آتے ہیں۔ جو مقابلے میں پیچھے رہ جاتا ہے۔ جو ماں کی آنکھ کا تارا ہوتا ہے۔ وہ گھر میں اپنوں کے روزدئے جانے والے طعنوں کے خوف سے گھر لوٹ نہیں پاتا۔اپنوں کی قہر بھری نظریں اس کا راستہ روکتی ہیں۔ اس کے اندر کا انسان کہیں چھپ جاتا ہے اور باہرکا انسان چھپنے کے حیلے ڈھونڈتا ہے۔ تبھی وہ اوپر دیکھتا ہے اور موت کو حل گردانتا ہے وہ زندگی کو ایک بوجھ سمجھنے لگتا ہے۔ گھر پر متشدد والدین کی نگاہیں اسے توڑ دیتی ہیں وہ خود ٹوٹ جاتا ہے کیوں کہ وہ خود کو سب سے قابل رحم سمجھتا ہے۔
کہیں پر کوئی لڑکی ماں کے آنگن میں جوان ہوتے اپنوں کی اپنائیت دیکتھی ہے۔ تبھی کہیں دل دے بیٹھتی ہے لیکن اسے علم ہوتا ہے کہ جیسے ہی وہ اظہار کرے گی اسے ماردیا جائے گا۔ اس کی پسند کو زہر کی سیاہی سمجھا جائے گا۔ تبھی رویوں سے شاکی ، دل میں دکھ اٹھائے وہ بھی موت کو واحد حل سمجھتی ہے۔ وہ بھی سب سے روٹھ جاتی ہے۔
اسی طرح وہ نوجوان جو ذہنی مسائل سے جوج رہا ہوتا ہے۔ جو ڈپریشن جسی بیماریوں کا سامنا کرتا ہے مگر اس ڈر سے کہ معاشرہ اسے پاگل نہ قرار دے وہ کسی ماہر نفسیات سے بھی رجوع نہیں کرتا یہاں تک کہ حالت شدید خراب ہوجاتی ہے اور اسے پھر موت ہی واحد حل نظر آتا ہے۔مگر کیا یہ حل ہے اگر کوئی اسے محبت، توجہ ، اپنائیت سے اس "مگر” کا احساس دلا دے تو شاید ایک زندگی بچ بھی سکتی ہے۔
ان خودکشیوں کی سب سے بڑی وجہ زندگی پر اعتماد کی کمی اور جینے کی امنگ کا ختم ہونا ہے۔
جب اپنے محبت کا احساس دلانا چھوڑ دیں۔ خواہشوں کا روز گلا گھونٹتے ہوں۔ روز طعنوں کی مار مارتے ہوں۔ بے جا توقعات کی منڈی سجا بیٹھیں۔ ہر طرف صرف مقابلہ بازی ہو اور اسی بنیاد پر انہیں خوب سنایا جاتا ہو تو ایسے میں بچہ موت کی سن لیتا ہے۔ وہ موت کو راہ حل سمجھتا ہے۔
انسان خدا کی سب سے خوب صورت تخلیق ہے۔ وہ ذہنی لحاظ سے مسائل کا شکار بھی ہوسکتا ہے۔ اس کا مزاق اڑا کر، اسے طعنوں کے جوہڑ میں گراکر دوسرا انسان کوئی اعلی مقام حاصل نہیں کرتا۔
ان جوانوں کو سمجھئے۔ ان سے بات کیجئے۔ گھر کے بچوں کے نمبر کم آئیں تو اسے بری طرح مت روز کوسیں۔ اسے اس فضول مقابلے کی دوڑ سے باہر کیجئے۔ اس کا حوصلہ بڑھائیں۔ وہ بے روزگار ہے تو گھر کے بچے تک اس سے بات کرنا چھوڑ دیتے ہیں۔ نمبر کم لائے تو ہر رشتہ شاکی نظروں سے دیکھتا ہے۔ پسند کی بات کرے تو بڑے نفرت کی بندوق لے کر آگے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ ذہنی بیماری کا ذکر کرے تو پاگل پن کی مہر لگا دیتے ہیں۔ جب تک یہ سب رویے ترک نہیں ہوں گے خود کشی کا رجحان ختم نہیں ہوگا۔ انسان کو انسان سمجھئے۔ مقابلے کی مشین مت بنائیں۔ اسے جینے دیں۔ اس کی آرزوں اور خواہشات کو بھی سمجھئے۔ اس سے بات کیجئے۔ محبت دیجئے۔ وہ غربت کی وجہ سے خود کشی کرنے پر مجبور ہے تو اس کی مدد کیجئے۔ اس کے لیے راستہ تلاش کیجئے۔ اس کا سہارا بنیں۔ دیکھیں کیسے معاشرہ بہتر معاشرہ بنے گا۔ سب نکھر جائیں گے اور پھر پُل پر دریا کے کنارے صرف خوب صورت باتیں ہوں ، یادیں ہوں گی۔ پنکھوں کے نیچے ٹھنڈی ہوا لینے والے اجسام ہوں گے۔ مسکراتے لوگ جن کی مسکراہٹ سے گھر کا آنگن مہکا کرے گا۔